جوہری ہتھیاروں کے امتناع کا معاہدہ جولائی 2017 کو منظور ہوا تھا جس پر اقوام متحدہ کے قائم کردہ تخفیف اسلحہ کے مذاکراتی فورمز کے دائرے سے باہر بات چیت ہوئی تھی۔ پاکستان سمیت کسی بھی جوہری ریاست نے معاہدے کے لئے مذاکرات میں حصہ نہیں لیاتھا، یہ معاہدہ تمام فریقین کے جائزمفادات کا احاطہ کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوا تھا۔ جوہری قوت نہ رکھنے والی بہت ساری ریاستوں نے معاہدے کا فریق بننے سے احتراز برتا تھا۔
1978 میں جوہری تخفیف اسلحہ کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اولین خصوصی اجلاس میں سب کا اتفاق تھا کہ جوہری تخفیف اسلحہ کے اقدامات لیتے ہوئے ہر ریاست کی سکیورٹی کے حق کو ذہن میں رکھاجائے گا اور ہر مرحلے پر تخیف اسلحہ کا ہدف ممکنہ کم ترین سطح پر ہتھیاروں اور افواج کے ساتھ ہر ریاست کی بلاتخفیف سکیورٹی ہوگی۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین کی شمولیت سے اتفاق رائے پر مبنی عمل کے ذریعے اشتراکی اور عالمگیر اتفاق سے ہی اس کلیدی مقصد کو حاصل کیاجاسکتا ہے جس کے نتیجے میں تمام ریاستوں کویکساں اور بلاتخفیف سکیورٹی میسر رہے۔جوہری تخفیف اسلحہ کے کسی قدم کے لئے یہ ناگزیر امر ہے کہ ہر ریاست کی سلامتی کے کلیدی پہلو کو پیش نظر رکھاجائے۔
لہذا اس تناظر میں پاکستان خود کو اس معاہدے کے تحت کسی ذمہ داری کا پابند نہیں سمجھتا۔ پاکستان زور دیتا ہے کہ یہ معاہدہ کسی بھی طورپر عالمی قانون کا نہ تو حصہ ہے اور نہ ہی اس کی پیش رفت میں کوئی حصہ ڈالنے کا باعث ہے۔